ایک دستاویز میں سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کے پاکستانی صدر آصف علی زرداری اور عراقی وزیرِ اعظم نوری المالکی پر طنز کرنے کا ذکر کیا گیا ہے
وکی لیکس تقریباً ڈھائی لاکھ امریکہ کی خفیہ سفارتی دستاویزات کو منظرِ عام پر لایا ہے جن میں سے زیادہ تر پچھلے تین سال کے عرصے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان خفیہ سفارتی دستاویزات میں سے کچھ دستاویزات رواں سال فروری کی بھی ہیں۔
وکی لیکس یہ دستاویزات قسطوں میں اپنی ویب سائٹ پر لگائے گا۔ وکی لیکس امریکی نے ان خطوط کی کاپیاں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز، برطانوی اخبار گارڈین اور ایک جرمن نشریاتی ادارے کو پہلے سے مہیا کر دی ہیں۔
ایک دستاویز میں سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کے پاکستانی صدر آصف علی زرداری اور عراقی وزیرِ اعظم نوری المالکی پر طنز کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔
اسی سال جاری ہونے والی ایک دستاویز میں شاہ عبداللہ نے پاکستان صدر آصف علی زرداری کو ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔
نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی اس دستاویز کے مطابق سعودی فرمانروا نے صدر زرداری کا حوالا دیتے ہوئے کہا تھا: ’اگر سر ہی گلا سڑا ہو تو اس کا اثر سارے جسم پر پڑتا ہے۔‘
دوسری جانب ایک دستاویز میں پاکستان ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ امریکہ نے سنہ دو ہزار سات سے پاکستان کا افزودہ یورینیئم اپنے قبضے میں لینے کا ایک خفیہ منصوبہ بنایا ہوا ہے۔ تاہم یہ منصوبہ ابھی تک کامیاب نہیں ہوا ہے۔ امریکی حکام کو ڈر ہے کہ یہ افزودہ یورینیئم غلط ہاتھوں میں جا سکتا ہے۔
سنہ دو ہزار نو مئی میں اس وقت کی امریکی سفارتکار این ڈبلیو پیٹرسن نے ایک خفیہ دستاویز میں کہا پاکستان امریکی ماہرین کو پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق ایٹمی تنصیبات کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔ انہوں نے مذید لکھا کہ ایک سرکاری افسر نے کہا ’اگر پاکستانی میڈیا کو معلوم چل گیا کہ یورینیئم قبضے میں لے لیا گیا ہے تو وہ اس عمل کو اس بات کے مترادف سمجھیں گے کہ امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیار قبضے میں لے لیے ہیں۔‘
ان دستاویزات کے مطابق اوباما انتظامیہ ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکی کہ کون سے پاکستانیوں پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے اور کون سے عناصر پر نہیں۔
اس پیغام میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لاہور میں امریکی قونصل خانے کے باہر گھومنے والے رکشہ ڈرائیور کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہے کہ آیا وہ اپنے کرائے کا انتظار کر رہا ہے یا قونصل خانے کی طرف جانے والی سڑک کی نگرانی کر رہا ہے۔
No comments: