وکی لیکس: امریکہ نے سفارتکاروں سے خفیہ معلومات کا مطالبہ کیا گیا
“If you are born poor its not your mistake, But if you die poor its your mistake.” ― Bill Gates Earn Money Online from Home
وکی لیکس تقریباً ڈھائی لاکھ امریکہ کی خفیہ سفارتی دستاویزات کو منظرِ عام پر لایا ہے جن میں سے زیادہ تر پچھلے تین سال کے عرصے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان خفیہ سفارتی دستاویزات میں سے کچھ دستاویزات رواں سال فروری کی بھی ہیں۔
وکی لیکس یہ دستاویزات قسطوں میں اپنی ویب سائٹ پر لگائے گا۔ وکی لیکس امریکی نے ان خطوط کی کاپیاں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز، برطانوی اخبار گارڈین اور ایک جرمن نشریاتی ادارے کو پہلے سے مہیا کر دی ہیں۔
وکی لیکس نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے 2008 میں مختلف ملکوں میں اپنے سفارتکاروں کو ایسی خفیہ معلومات جمع کرنے کی ہدایات جاری کیں جن سے سفارتی اور جاسوسی فرائض میں فرق غیر واضح ہوکر رہ گیا۔
امریکی دفتر خارجہ کی طرف سے دستاویز کے مطابق سفارت کاروں کو اقوام متحدہ اور دوسرے ملکوں میں اہم شخصیات کے کریڈٹ اور بزنس کارڈز کی تفصیلات جمع کرنے، ان کے اوقات کار اور دوسری ذاتی معلومات جمع کرنے کی بھی ہدایات جاری کی گئیں۔
تاہم مشرق وسطیٰ، مشرقی یورپ، لاطینی امریکہ اور اقوام متحدہ میں امریکی مشن کو جو پیغامات ارسال کیے گئے، اُن میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ امریکی سفارت کاروں نے دوسرے ملکوں کے خفیہ قومی معلومات چرانے کی کوشش کی جو عموماً ملک کی انٹیلیجنس ایجنیسیاں کرتی ہیں۔
افغانستان، الجیریا اور بحرین میں سابق امریکی سفیر رونلڈ ای نومین ایک دستاویز میں یہ شکوہ کرتے ہوئے پائے گئے کہ واشنگٹن ان سے دیگر ملکوں کے بارے میں مسلسل وسیع پیمانے پر معلومات بھیجنے کا تقاضہ کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے لیے یہ ناقابل فہم ہے کہ مختلف شخصیات کے کریڈٹ کارڈز کے نمبر وغیرہ جمع کرنے کا مطالبہ فارن سروس کے افسران سے کیوں کیا جارہا ہے جن کے پاس اس طرح کی خفیہ معلومات جمع کرنے کی تربیت نہیں ہے۔
’سب سے پہلے میری تشویش یہ ہے کہ آیا سفارت کار ذمے دارانہ طریقے سے اور کسی مشکل میں پھنسے بغیر ایسا کرسکیں گے یا نہیں، اور دوسرے یہ کہ ایسا کرنے میں اُن کا جو وقت صرف ہوگا اُس سے ان کے اپنے معلول کے فرائص انجام دینے میں کتنا حرج ہوگا۔‘
اسی طرح مارچ دو ہزار آٹھ میں لکھے گئے ایک اور خط میں پیراگوئے میں تعینات ایک سفارت کار سے پیراگوئے، برازیل اور ارجنٹائین کے سرحدی علاقے میں القاعدہ، حزب اللہ اور حماس کی موجودگی کے بارے میں دریافت کیا گیا۔
No comments: