وکی لیکس میں اہم کیا
خفیہ دستاویزات سامنے لانے کے لیے مشہور ویب سائٹ وکی لیکس نے امریکی سفارتی عملے کی جانب سے بھیجے جانے والے ڈھائی لاکھ سے زائد پیغامات قسط وار شائع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اب تک وکی لیکس نے اپنی ویب سائٹ پر اب تک دو سو بیس پیغامات شائع کیے ہیں جو کہ ویب سائٹ کی جانب سے نیویارک ٹائمز اور گارڈین سمیت پانچ میڈیا گروپس کو پہلے ہی فراہم کر دیے گئے تھے۔
یہاں پر ان دستاویزات سے سامنے آنے والی کچھ اہم معاملات کا خلاصہ دیا جا رہا ہے۔
پاکستان کا جوہری پروگرام
ان پیغامات میں پاکستان کے جوہری بجلی گھروں میں موجود ریڈیو ایکٹو مواد پر امریکی خدشات کا ذکر ہے۔ پیغام میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ جوہری مواد دہشتگرد حملوں میں استعمال ہو سکتا ہے۔ ان پیغامات کے مطابق امریکہ سنہ 2007 سے کوشش کر رہا ہے کہ وہ پاکستان کے ایک تحقیقی ری ایکٹر میں موجود افزودہ یورینیم وہاں سے منتقل کر لے۔
مئی سنہ 2009 کے کیبل پیغام میں امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے کہا ہے کہ پاکستان نے امریکی ماہرین کو جوہری ری ایکٹر کے دورے کی اجازت نہیں دی ہے۔ ان کے مطابق پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ جوہری ایندھن کی منتقلی کو پاکستان میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں پر کنٹرول کی شکل میں دیکھا جائے گا۔
اقوامِ متحدہ کے حکام کی بایومیٹرک جاسوسی
امریکی وزیرِخارجہ کی جانب سے امریکی سفارتکاروں کو بھیجے جانے والے ایک پیغام انہیں کہا گیا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے اہم حکام کے آئرس سکین، ڈی این اے کے نمونے اور انگلیوں کے نشانات جیسی بایومیٹرک اور بایوگرافک معلومات جمع کریں۔
انہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ کریڈٹ کارڈز کی تفصیل، ای میل پتے اور پاس ورڈ اور کمپیوٹر نیٹ ورکس اور سرکاری رابطوں کے لیے استعمال کی جانے والی’انکرپشن کیز‘ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
وکی لیکس کی جانب سے جاری کردہ دستاویزات میں متعدد ممالک کے لیے اس قسم کے کم از کم نو پیغامات شامل ہیں جو کہ موجودہ امریکی وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن اور سابق امریکی وزیرِخارجہ کونڈولیزا رائے کی جانب سے بھیجے گئے ہیں۔
ایران پر حملہ
ان پیغامات کے مطابق متعدد عرب رہنماؤں اور ان کے نمائندوں نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ ایران پر حملہ کر کے اس کا مبینہ جوہری پروگرام ختم کر دے۔ امریکہ میں سعودی سفیر عادل الجبیر نے سنہ 2008 میں امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریس کو ایک ملاقات میں بتایا کہ سعودی شاہ چاہتے ہیں کہ امریکہ ’سانپ کا پھن کچل دے‘۔
دستاویزات کے مطابق بحرین کے شاہ حماد بن عیسٰی الخلیفہ نےامریکہ سے کہا کہ وہ ایران کو ’ہر ممکن طور پر‘ روکنے کی کوشش کرے جبکہ ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زید نے امریکی حکام کو بتایا کہ ان کا یہ ماننا ہے کہ ایران ’ہم سب کو جنگ کی جانب دھکیل رہا ہے‘۔
چین کی ہیکنگ
دستاویزات کے مطابق چینی حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر کمپیوٹر ہیکنگ کے مبینہ استعمال پر خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔ پیغامات کے مطابق چین نے سنہ 2002 سے ہیکرز اور نجی سکیورٹی ماہرین کے گروپ ملازم رکھے ہوئے ہیں اور وہ امریکہ کے سرکاری اور کاروباری کمپیوٹرز کے علاوہ اس کے مغربی اتحادیوں اور دلائی لامہ کے کمپیوٹرز بھی ہیک کر چکا ہے۔
ایک پیغام کے مطابق ایک چینی مخبر نے بیجنگ میں امریکی سفارتخانے کو بتایا کہ جنوری میں گوگل کے کمپیوٹر نظام کی ہیکنگ کے پیچھے چینی حکومت تھی۔
متحدہ کوریا کا منصوبہ
افشا کیے جانے والے پیغامات کے مطابق امریکہ اور جنوبی کوریا نے شمالی کوریا کے سقوط کی صورت میں متحدہ کوریا کے منصوبے پر بات کی تھی۔ سیول میں امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ جنوبی کوریا اس سلسلے میں چین کو تجارتی مراعات کی پیشکش بھی کر سکتا ہے تاکہ متحدہ کوریا کے حوالے سے اس کے خدشات کو دور کیا جا سکے۔
گوانتانامو
ان پیغامات میں گوانتانامو حراستی مرکز سے رہا ہونے والے افراد کو لینے کے بارے میں کئی ممالک کی بات چیت کا ذکر ہے۔ سلووینیا کو ایک قیدی کو قبول کرنے کے عوض امریکی صدر سے ملاقات کی پیشکش کی گئی جبکہ جنوبی بحر الکاہل کے ملک کیریباتی کو اس سلسلے میں کئی ملین ڈالر کی مراعات کی پیشکش کی گئی۔
بیلجیم سے کہا گیا کہ’قیدیوں کو قبول کرنا یورپ میں بیلجیم کے لیے اہم مقام حاصل کرنے کا ایک کم خرچ طریقہ ہے‘۔
عالمی رہنما
ان دستاویزات میں کئی عالمی رہنماؤں کا بھی ذکر ہے۔ روم میں تعینات ایک امریکی سفارتکار نے اطالوی وزیراعظم سلویو برلسکونی کو ’بطور جدید یورپی رہنما بےکار اور بے اثر‘ قرار دیا۔
سنہ 2008 میں ماسکو میں امریکی سفارتخانے نے روسی صدر دمیتری میدویدو کے بارے میں کہا کہ وہ ’بیٹ مین (وزیراعظم ولادیمیر پوتن) کے مقابل روبن کا کردار نبھا رہے ہیں‘۔
پیغامات میں ولادیمیر پوتن اور سلویو برلسکونی کے انتہائی قریبی تعلقات کا بھی ذکر ہے۔
ایک پیغام میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ال کو فالج کے حملے کے بعد ’ٹراما‘ کا شکار ’بوڑھا شخص‘ قرار دیا گیا ہے جبکہ ایران کے صدر محمود احمدی نژاد کو ’ہٹلر‘ سے تشبیہ دی گئی ہے
No comments: