بھارتی کرکٹ بورڈ کے لیے لمحہ فکریہ
بھارت کی ٹیم ڈھائی روز میں آسٹریلیا کے ساتھ ٹیسٹ میچ ہار گئی اور اس طرح سیریز میں آسٹریلیا کو تین صفر کی برتری حاصل ہو گئی ہے۔
پچھلے سال انگلینڈ کے دورے سے لے کر اب تک دوسرے ملکوں میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچوں میں بھارت کی یہ متواتر ساتویں شکست تھی۔
سپورٹس رائٹر سریش مینن نے تجزیہ کیا ہے کہ کیوں اب بھارتی کرکٹ بورڈ خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی۔
کہا جاتا ہے کہ اگر مینڈک کو کھولتے پانی میں ڈالو تو وہ نکلنے کے لیے بھرپور کوششیں کرتا ہے۔ لیکن اگر مینڈک کو ٹھنڈے پانی میں ڈالو اور پانی کو آہستہ آہستہ گرم کرو تو مینڈک وہیں بیٹھا رہتا ہے۔
بھارتی کرکٹ ٹیم بھی اس وقت ابلتے پانی میں لیکن یہ پانی اتنے آہستہ گرم ہوا ہے کہ کسی کو معلوم ہی نہیں چلا۔ دوسرے ملک میں متواتر ساتویں ہار کے بعد جذبات کو ایک طرف کیا جائے۔
بھارتی کرکٹ بورڈ کے ذہن میں یہ ہونا چاہیے تھا کہ 2008 میں جب گنگولی ریٹائر ہوئے تو سوچ یہی تھی کہ سچن، ڈراوڈ اور لکسمن بھی ریٹائر ہو جائیں گے۔
تین سال بعد آسٹریلیا میں یہ معلوم پڑا کہ ہمارے پاس متبادل نہیں ہیں۔
نظام نے بھارتی ٹیم کو اس حال تک پہنچایا اور اس نظام کی ذمہ داری کرکٹ بورڈ پر ہے۔ بورڈ کی پوری توجہ ٹی ٹوئنٹی سے پیسے کمانے پر تھی اور اس نے نیشنل چیمپیئن شپس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
پیسے سے جیت نہیں سکتے
بورڈ کو یہ بات تو معلوم ہے کہ پیسوں سے اثر و رسوخ تو پایا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ان کو یہ نہیں معلوم تھا کہ پیسوں سے جیتا نہیں جاسکتا۔ اور یہ بات کھلاڑیوں کو اس وقت معلوم ہو رہی ہے جب پوری قوم ان کے خلاف ہو گئی ہے۔
اگر بورڈ ہی پیسے بنانے میں مصروف ہو تو پھر کھلاڑیوں کو ایسا کرنے پر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔
بورڈ کو یہ بات تو معلوم ہے کہ پیسوں سے اثر و رسوخ تو پایا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ان کو یہ نہیں معلوم تھا کہ پیسوں سے جیتا نہیں جاسکتا۔ اور یہ بات کھلاڑیوں کو اس وقت معلوم ہو رہی ہے جب پوری قوم ان کے خلاف ہو گئی ہے۔
سنہ 2007سے بھارت نے اٹھائیس میچوں میں صرف آٹھ جیتے ہیں اور تیرہ ہارے ہیں۔
بھارت نے اپنی پچپن اننگز میں صرف نو بار سو اوورز سے زیادہ بیٹنگ کی ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ ہم نے کھیل کو آسان سمجھنا شروع کردیا تھا کیونکہ ہمارے پاس بہترین بیٹسمین موجود ہیں۔ سچن، ڈروڈ، لکشمن، گنگولی اور سہواگ کے ہوتے ہوئے کچھ اتنا آسان دکھائی دینے لگا کہ ہمیں وقت کے ساتھ ساتھ ان کی کمزور ہوتی بیٹنگ کا احساس تک نہیں ہوا۔
کرکٹ سلیکٹرز بھی اس عرصے میں منصوبہ بندی نہیں کر سکے اور نتیجتاً مڈل آرڈر بیٹنگ ایک ساتھ ریٹائر ہو جائے گی۔
No comments: